بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ نوری ہمدانی نے غزہ کی بحرانی صورتحال پر پوپ لیو چہاردہم کے نام ایک خط تحریر کیا، جو ویٹکن میں ایران کے سفیر کے ذریعے انہیں پیش کیا گیا۔
خط کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیتھولک دنیا کے روحانی پیشوا
جناب پوپ لیو چہاردہم
تسلیمات اور احترامات
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، انسانی وقار انسان کی شرافت، عظمت اور اس کی ذاتی قدر کو کے معنی میں آیا ہے جو الٰہی ادیان کے بنیادی تصورات میں سے ایک ہے۔ ابراہیمی ادیان سب ہی انسان کے بلند مقام پر زور دیتے ہیں اور اسے ایک ایسے وجود کے طور پر دیکھتے ہیں جسے خدا نے خصوصی طور پر تخلیق کیا ہے، اور وہ ذاتی قدر اور روحانی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ تمام الٰہی ادیان مساوات، آزادی، ذمہ داری اور انسانی حقوق کے اصولوں کی تائید کرتے ہیں اور نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
امر مسلّم ہے کہ الٰہی ادیان، اگرچہ باہم اعتقادی اختلافات رکھتے ہیں، لیکن انسانی وقار کے تحفظ پر سب متفق ہیں۔ یہ وقار نہ صرف انسانی حقوق کی بنیاد ہے، بلکہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اخلاقی اور انسانی تعامل و تفاہم کی راہ بھی ہموار کرتا ہے؛ ایک ایسی دنیا میں جہاں تشدد اور امتیاز بڑھ رہا ہے، اس مشترکہ اصول کی طرف واپسی پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کا بہترین ذریعہ ہو سکتی ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، غزہ ایک محصور علاقہ ہے جو آج ظلم اور ناانصافی کے خلاف انسان کی مظلومیت کی علامت بن چکا ہے۔ اور ایسے حال میں کہ دنیا روزانہ بے گناہ بچوں، خواتین اور مردوں کی بھوک، پیاس اور ادویات کی کمی سے اموات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، صہیونی ریاست غزہ کے مکمل محاصرے اور خوراک و امدادی سامان کی رسائی کو روک کر معاصر تاریخ کا ایک بے مثال المیہ رقم کر رہی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسانی نقطہ نظر سے، بلکہ مذہبی، اخلاقی اور بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے بھی مکمل طور پر ناقابل قبول اور قابل مذمت ہے۔
اسلام رحمت اور انسانیت کا مذہب ہے، جس میں بے گناہوں، خاص طور پر بچوں اور خواتین کو ایذا رسانی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ(ع) کی تعلیمات میں بھی بھوکوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا ایک الٰہی فریضہ ہے۔ توریت میں بھی عدل اور دوسروں کے ساتھ شققت سے پیش آنے پر زور دیا گیا ہے۔ الٰہی ادیان کے مطابق، لوگوں کو خوراک سے محروم کرنا خدا کی مرضی کے خلاف، ایک بڑا ظلم ہے۔
انسانی اخلاقیات اور بیدار ضمیر کی رو سے بھی لاکھوں بے گناہ افراد، بشمول خواتین اور بچوں، کا محاصرہ کرنا، ان پر ظالمانہ دباؤ ڈالنا، ان پر بہیمانہ یلغار کرنا اور ان تک خوراک و ادویات کی رسائی روکنا ایک ناقابل معافی غلطی ہے۔ انسانی اخلاقیات کی بنیاد انسان کے ذاتی وقارت و کرامت پر استوار ہے۔ ہر بے گناہ انسان، چاہے اس کا تعلق کسی بھی قومیت، مذہب یا نسل سے ہو، ایک عزت مندانہ زندگی کا مستحق ہے۔
کسی آبادی کو جان بوجھ کر خوراک، پانی اور ادویات سے محروم کرنا انسانی ضمیر کے خلاف ایک جرم ہے اور انسانی بقائے باہمی کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ صہیونی ریاست کا غزہ کے عوام کے ساتھ سلوک نہ صرف غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے، بلکہ معتبر بین الاقوامی قانونی دستاویزات کے مطابق جنگی جرم بھی ہے۔
صہیونی ریاست کا ظالمانہ اور غیر انسانی رویہ، جو غزہ کے لوگوں کو خوراک اور ضروری اشیا کی رسائی سے روک رہی ہے، مذہبی، انسانی، اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ اقدام نہ صرف عالمی سطح پر مذمت کا مستحق ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر قانونی چارہ جوئی اور سزا کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ اب تمام آزاد ضمیر انسانوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، مذہبی اداروں اور دنیا بھر کی قوموں کا فرض ہے کہ وہ اس جرم کے خلاف خاموش نہ رہیں اور غزہ کے مظلوموں کی آواز بنیں۔
میں آپ کے فلسطین کے معاملے پر حالیہ خطبے کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جس میں آپ نے غزہ کی المناک صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور اسے ایک ایسی صورت حال قرار دیا جس کا دردناک بوجھ خاص طور پر بچوں، بزرگوں اور مریضوں پر پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف سے آپ نے بین الاقوامی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کی پابندی کرے، غیر فوجیوں کے تحفظ، اجتماعی سزا کے استعمال کی ممانعت، غیر ضروری طاقت کے استعمال اور جبری نقل مکانی سے گریز، کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔
جناب پوپ
جو کچھ آج غزہ میں ہو رہا ہے، وہ کسی بھی مذہبی، انسانی یا اخلاقی معیار کی رو سے ناقابل تصویر اور ناقابل قبول ہے۔ روزانہ درجنوں بچے قحط کی وجہ سے بھوکوں مر رہے ہیں، اور یہ ایک کھلی ہوئی نسل کشی ہے جو ہر حریت پسند انسان کے دل کو زخمی کر دیتی ہے۔ اس خوفناک صورتحال میں اگر انبیائے الٰہی ـ جیسے حضرت موسیٰ(ع)، حضرت عیسیٰ(ع) اور حضرت محمد(ص) ـ آج موجود ہوتے، تو کیا وہ اس قدر مصائب اور تکالیف کو دیکھ کر خاموش رہتے یا وہ اس قسم کے ظالمانہ اور غیر انسانی واقعات کے صرف تماشائی بنتے اور کوئی رد عمل ظاہر نہ کرتے؟
امید است جناب عالی و دیگر رهبران دینی در پیشگیری از این نوع جنایات ضد بشری توسط رژیم صهیونیستی اقدامات موثر و نقش آفرین انجام دهند.
امید ہے کہ جناب عالی اور دیگر مذہبی رہنما صہیونی ریاست کے انسانی حقوق کے خلاف صہیونی ریاست کو روکنے کے لئے مؤثر اور بنیادی اقدامات عمل میں لائیں گے۔
جناب پوپ
آخر میں، میں یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ ابراہیمی ادیان، مذہب کے نام پر ہونے والے اس طرح کے مظالم (صہیونی مجرموں کی جانب سے 80 سال سے جاری یہودی ریاست کے قیام کے بہانے ظلم و ستم) کی مذمت کرتے ہوئے، ایک دانشمندانہ اور عالمی فریم ورک کے تحت اپنی تمام صلاحیتیں استعمال بروئے کار لائیں تاکہ طاقت اور تشدد کے استعمال کو روکا جا سکے اور امن و انسانیت کو فروغ دیا جا سکے۔
والسلام
حسین نوری ہمدانی
آپ کا تبصرہ